اُسے کہو یوں نا مسکرایا کرے ہمیں دیکھ کر
یہ دل خوامخواہ ہی خوش فہم ہو جاتا ہے
ازثمن وحید
ترکِ محبت کا ارادہ کیے بیٹھا ہے یہ دل
پر وہ شخص ہے کہ ذہن سے جاتا ہی نہیں
ازثمن وحید
ویرانیِ دل ہے کہ جاتی ہی نہیں
ذکرِ خدا ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا
ازثمن وحید
سوچیں اور عادتیں کافی ملا کرتیں تھی ہماری مہر
لفظ 'محبت' پر آکر اکثر میرا اُس سے اختلاف رہا
ازثمن وحید
ہر بار میں نے اپنی تنہائی میں تجھے ڈھونڈا
ہر بار میرا دل خالی ہاتھ ہی لوٹا مہر
ازثمن وحید
Like comment and share it.
1 Comments
An interesting read, need more books like this...
ReplyDelete